صالحہ
بےچینی اتنی بڑھی کہ خود ہی
نئی قبا کو اتار پھینکا
نئی قبا کو اتار پھینکا
بڑے زمانے کے بعد اپنے
پرانے بٹوے میں جھانک دیکھا
پرانے بٹوے میں جھانک دیکھا
بوسیدہ کاغذ، پھٹی رسیدیں
اک چونی اور سر کی پنیں
اک قلم، اک مو قلم
چٹ پہ لکھی بقایہ رقمیں
ورق میں لپٹے الائچی دانے
لال رنگ کی چھوٹی ڈبیا
کنارے پر سے تھوڑا ٹوٹا
ہاتھ والا گول شیشہ
خوشبو کی بوتل مکمل خالی
ڈائری فون نمبروں والی
کریدنے پہ پرانا بٹوا
یوں لگا
کہ جیسے میں نے
پرانی یادوں کی
بھولی باتوں کی
ساری قبروں کو کھود ڈالا______
جہاں دفن تھے
مرے پرانے وہ سارے چہرے
گلاب چہرے، عذاب چہرے
شکستہ خانہ خراب چہرے
ہوا لگی تو
تمام چہروں نے
کہانیوں کا چمن سجایا
تمام چہروں نے مل کے گزری ساعتوں کا گیت گیا
ہوا لگی تو
تمام چہروں نے مل کے مجھ کو
کبھی ہنسایا، کبھی رلایا_________
No comments:
Post a Comment
What you write is what you think and what you think is who you are.