Sunday, March 31, 2013

عشقِ مسلسل

صالحہ 


شہد کے رنگ کی دھوپ 
دودھ سا دھند کا غبار 
جنتوں جیسی ادا جب زمیں کی ہونے لگے 
ہیبتِ روزِ حشر، دہشتِ روزِ جزاء 
چاہتِ باغِ بہشت، اپنی کشش کھونے لگے 

جب خود ہی اپنی شبیہ حور سا مسحور کرے 
برہمیِ رب سے سوا لگنے لگے 
صدمہِ ناراضیِ دوست 
اندیشہِ بربادیِ عشق 
فنا کے محل و مکاں کی آگہی پہ بھاری ہو 
تو راہِ راست  کے معنی کسی نے جو بھی لکھے 
مری نظر میں وہ یکسر بدلتے جاتے ہیں

تائیدِ زندگی

صالحہ


مجھے زندگی کو ڈھونڈنے کا شوق ہے
تبھی تو میں
سمتوں سے بے نیاز، راستوں سے بے خبر
ایڑیوں کے پھیر میں ہوں مگن 

گماں کی راہداریوں میں گھومتے
گن رہی ہوں دھیان سے 
تال اپنی سانس کی، چاپ اپنے پاؤں کی 
زندگی کو ڈھونڈتی ہوں ہر قدم کی گونج میں 

اجنبی ساحلوں سے 
سمندروں کے افق پر نگاہ کیے 
ہر امڈتی لہر کی تان سن رہی ہوں میں 
بے قرار انگلیوں سے بِین کر
پانیوں میں کوندتے لمحے چن رہی ہوں میں 

خانہِ فہم و یقین کا
یہ گوشہِ ستائش، وہ گوشہِ نمائش ہے 
یہاں
گۓ کل کے رس سے بھاری ساعتیں
حافظے کے تختِ عشرت پر جمی
ناز سے پہلو بدلتی ہیں کبھی کبھی
..........................................................

میں جانتی ہوں
کہ زندگی کو ڈھونڈتے 
ملی اگر کوئی پناہ تو ہو گی وہ 
بازگشتِ دلبراں میں
قربِ یار و عاشقاں میں 

میں زندگی کو پاؤں گی 
تمھارے میرے دھڑدھڑاتے دل کے بیچ 
(جہاں ربوبیت ہیچ)
زندگی کو ڈھونڈتے میں زندگی بن جاؤں گی
میں زندگی کو پاؤں گی 



Tuesday, March 26, 2013

میں نے دستک دی


عطااللہ سجّاد


میں نے دستک دی کہ شائد کوئی آواز آۓ 
کوئی اندر سے کہے
"ٹھہریے، کھلتا ہے ابھی دروازہ"
یا کوئی پھول سا کومل چہرہ 
جھانک کے دروازے سے
مسکرا کر یہ کہے 

"اندر آ جاؤ، تھکے ماندے ہو، آرام کرو
یہ غبارِ سرِ آشفتہ، یہ خاکِ سرِ پا 
سرِ دہلیز انہیں جھاڑ کے اندر آؤ
اِس شبستان کو آباد کرو

اور جب صبح دریچے سے ہمیں جھانکے گی
میں تیری نیند سے بھرپور، سجل آنکھوں کو
اِذنِ بیداری عطا کر دوں گی 
اور تیری بادیہ پیمائی میں
ہاتھ میں ہاتھ دیے
گامزن ہوں گی تیرے ساتھ قدم تابہ قدم"

کوئی آواز نہیں آئی مگر 
کوئی دروازے سے جھانکا بھی نہیں
نظر آیا نہ کہیں پھول سا کومل چہرہ 
میری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ہے
جیسے ویرانے میں درماندہ مسافر کی پکار
گونج کے ساتھ پلٹ آتی ہے 
اور تنہائی کا ہر ہر لمحہ 
سانپ بن کر اسے ڈستا ہے، اسے کاٹتا ہے 

میری دستک کا جواب
ایک دلدوز خموشی کے سوا کچھ بھی نہیں 
....................................................... 
مجھے تقدیر کا پیغام ہے یہ
کوئی دروازہ نہیں کھلتا اگر
ہمسفر کوئی نہیں ملتا اگر
پھر بھی تنہا ہی چلو،
پھر بھی تنہا ہی بڑھو
سفرِ دردوالم جاری رہے 

اجنبی بستیوں میں، شہروں میں، ویرانوں میں
بے شجر راہوں میں، بے سایہ بیابانوں  میں
سفر آمادہ رہوں گا جب تک
ہے میسر میری تنہائی کو
صحبتِ خارِ مغیلاں، یارئِ سنگ سبیل 

ہانپتی محبتیں




محبتیں محبتیں جاگتی محبتیں
ہر قدم کے ساتھ ساتھ بھاگتی محبتیں
ہاتھ تھام کر کبھی
ساتھ چھوڑ کر کبھی
بےوفائیوں کی راکھ
بانٹتی محبتیں

آنسُؤں کے جلترنگ
مسکراہٹوں کے ساز
آنکھ کی کرن میں غم
جانچتی محبتیں

سڑک سڑک اُلانگتی
بھٹک بھٹک کے لوٹتی
دلبری کا سُراغ
مانگتی محبتیں

تیرے میرے درد کا
طول و عرض ناپتی
گلی کی ریت پھانکتی
محبتیں محبتیں
رُوٹھتی محبتیں
مانتی محبتیں

عمررسیدہ سلوٹوں کے
پیچ و خم میں گھومتی
ہر ایک سچ میں جھوٹ کی
ملاوٹوں کو جانتی
گرد گرد منزلوں کو
چھانتی محبتیں
محبتیں محبتیں
ہانپتی محبتیں
دل کے رعب کے تلے
کانپتی محبتیں

ایکانکی غزل




کہو دل سے کہو تمکو فسانے یاد کتنے ہیں
میرے بچپن، لڑکپن کے زمانے یاد کتنے ہیں

پرانے زخم گٹھنوں پر، کھرونچیں دل کے کونوں میں
ہیں قصّے سب میں پوشیدہ، زبانی یاد کتنے ہیں

کسےمجھ سے محبت تھی، میں کس پہ دل سے مرتی تھی
وہ اک تھے یا علیحدہ تھے، طلاطم یاد کتنے ہیں

میں شاعر ہوں یا شیدائی، میں ناصح ہوں یا قصّہ گو
حکایت یاد کتنی ہے، ترانے یاد کتنے ہیں

فقط خودرفتگی تھی وہ، یا پھر تھا عشق پوشیدہ
اچھنبا تھا یا مدّاحى، تواہم یاد کتنے ہیں

کسی نے سیپ کھنگالے،کسی نےموتی چن ڈالے
جو میں نے گن کے رکھے ہیں، وہ لمحے یاد کتنے ہیں

عذر میں شرمساری ہے، شرم میں عذر ہے پنہاں 
خجالت اور محبت کے تصادم یاد کتنے ہیں 

سوانح لکھنے بیٹھی تھی مگر بس شعر ہوتے ہیں
زمان دیگر, چه می دانید, تمکو  یاد کتنے ہیں 

ارتقاء




موسموں کی اوٹ میں
بدل رہی ہے یہ زمیں 
روز پیرہن نیا 
وقت اپنی بانسری پہ 
ساعتیں بجا رہا 
کائنات زندگی ہے 
سانس لیتی زندگی 
بلندیوں میں آسماں 
سمندروں کی رازداں 
ناچتی ہے دھوم سے 
دم دما دم دم دما
زندگی کی دھڑکنوں میں 
گونجتی ہے یہ فغاں 
کھول آنکھ آدمی

کہ کارخانۂ حیات عشق سے تپاں رہے 
منزلوں سے عزم کی 
پکارتی ازاں رہے 
اور 
شب کی تارکی میں بھی 
چاندنی کو اوڑھ کر
 راستہ رواں رہے