Tuesday, March 26, 2013

میں نے دستک دی


عطااللہ سجّاد


میں نے دستک دی کہ شائد کوئی آواز آۓ 
کوئی اندر سے کہے
"ٹھہریے، کھلتا ہے ابھی دروازہ"
یا کوئی پھول سا کومل چہرہ 
جھانک کے دروازے سے
مسکرا کر یہ کہے 

"اندر آ جاؤ، تھکے ماندے ہو، آرام کرو
یہ غبارِ سرِ آشفتہ، یہ خاکِ سرِ پا 
سرِ دہلیز انہیں جھاڑ کے اندر آؤ
اِس شبستان کو آباد کرو

اور جب صبح دریچے سے ہمیں جھانکے گی
میں تیری نیند سے بھرپور، سجل آنکھوں کو
اِذنِ بیداری عطا کر دوں گی 
اور تیری بادیہ پیمائی میں
ہاتھ میں ہاتھ دیے
گامزن ہوں گی تیرے ساتھ قدم تابہ قدم"

کوئی آواز نہیں آئی مگر 
کوئی دروازے سے جھانکا بھی نہیں
نظر آیا نہ کہیں پھول سا کومل چہرہ 
میری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ہے
جیسے ویرانے میں درماندہ مسافر کی پکار
گونج کے ساتھ پلٹ آتی ہے 
اور تنہائی کا ہر ہر لمحہ 
سانپ بن کر اسے ڈستا ہے، اسے کاٹتا ہے 

میری دستک کا جواب
ایک دلدوز خموشی کے سوا کچھ بھی نہیں 
....................................................... 
مجھے تقدیر کا پیغام ہے یہ
کوئی دروازہ نہیں کھلتا اگر
ہمسفر کوئی نہیں ملتا اگر
پھر بھی تنہا ہی چلو،
پھر بھی تنہا ہی بڑھو
سفرِ دردوالم جاری رہے 

اجنبی بستیوں میں، شہروں میں، ویرانوں میں
بے شجر راہوں میں، بے سایہ بیابانوں  میں
سفر آمادہ رہوں گا جب تک
ہے میسر میری تنہائی کو
صحبتِ خارِ مغیلاں، یارئِ سنگ سبیل 

No comments:

Post a Comment

What you write is what you think and what you think is who you are.